محمدشارب ضیاء رحمانی
گذشتہ دنوں مسجدحرام میں انتہائی دردناک حادثہ ہوا۔سعودی حکومت نے فوری کاروائی کرتے ہوئے بن لادن گروپ کے مکہ کے ٹھیکے کومعطل کردیااوراس کے افسران پراس وقت تک کہیں جانے پرپابندی لگادی جب تک کہ جانچ مکمل نہ ہوجائے،اس کے علاوہ شاہ سلمان نے شہداء کے ورثاء کودس لاکھ ریال یعنی تقریباََایک کروڑاسی لاکھ رقم دینے کااعلان بھی کیاساتھ ہی ساتھ شہداء کے اہل خانہ میں سے دوافرادشاہی مہمان بن کرحج بھی کریں گے۔سعودی حکومت کی بروقت کاروائی اوریہ فراخدلی واقعی قابل تعریف ہے۔اوریہ ان لوگوں کے منہ پرزوردارطمانچہ بھی ہے جوحرم حادثہ پرخوشیاں منارہے تھے۔واضح ہوکہ اس واقعہ کے بعدایک بی جے پی لیڈرکوخوشیاں منانے کے الزام میں گرفتاربھی کیاگیاہے۔ظاہرہے کہ گھرکے فردکے مقابلہ میں روپیوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے لیکن سعودی حکومت نے زخم مندمل کرنے کی کوشش کی ہے۔اس طرح عالمی جوابدہی اورپریشرسے بھی اس نے چھٹکاراپالیاہے۔
یہ بھی درست ہے کہ مسجدالحرام کاواقعہ ایک قدرتی حادثہ تھاحالانکہ تحقیقاتی کمیٹی نے کہاکہ کرین غلط سمت میں لگایاگیاتھا،لیکن سوال پھربھی ہے کہ گیارہ مہینے تک توتعمیراتی کام حرم میں جاری رہتے ہیں کیاحکومت صرف ایک ماہ کے لئے اسے روک نہیں سکتی تھی،مکہ سے موصول رپورٹ کے مطابق بن لادن کمپنی کوایام حج سے قبل ہی پراجیکٹ مکمل کرلیناتھالیکن شاہ عبداللہ کی وفات کی وجہ سے تعمیراتی کام کی رفتارتھوڑی سست ہوگئی اورپھرنئے شاہ نے پراجیکٹ میں توسیع کی جس کی وجہ سے جلدازجلداسے مکمل کرنے کی کوشش تھی۔لیکن پراجیکٹ میں توسیع کے بعدظاہرہے کہ کمپنی کواس کااندازہ لگ گیاہوگاکہ ایام حج تک کام مکمل نہیں ہوپائیں گے تواسے ایک ماہ تک روک دینے میں کیامجبوری تھی۔اس سے قبل بھی ایام حج میں حادثے ہوئے ہیں چنانچہ1990کی بھگدڑمیں1426افراد،1994میں رمی جمرات کے وقت بھگدڑمیں270افراد،1997میں آتشزدگی سے 340افراد،2001میں بھگدڑسے35افراد،2004میں بھگدڑسے200سے زیادہ افراداور2006میں مکہ میں برج پرمچی بھگدڑسے300افرادشہیدہوچکے ہیں۔ ان اعدادوشمارسے یہ ظاہرہوتاہے کہ اب تک
جتنے حادثے ایام حج میں ہوئے بیشتربھگدڑکی وجہ سے ہوئے ہیں۔اس کی بنیادی وجہ غلط اوربے بنیادافواہیں بھی ہوتی ہیں۔یاکسی الرٹ کے لئے الارم بجنے پرلوگ گھبراہٹ میں نکل جاتے ہیں۔ذرائع کے مطابق ہوٹل میں بیڑی سگریٹ جیسی چیزوں کی اجازت نہیں ہے لیکن اس کے عادی افرادبازنہیں آتے اورالارم بجنے لگتاہے جس سے گھبراہٹ ہوجاتی ہے۔
چنانچہ سعودی سفارت خانہ سے مطالبہ ہے کہ احتیاطی اقدامات کے تحت کم ازکم حکومت ابھی بھی تعمیراتی کام روک کرکرینوں کووہاں سے ہٹائے۔دوسری بات یہ کہ اس واقعہ کے بعدمختلف افواہوں کابازارگرم ہے۔دودن قبل اخبارات اورسوشل میڈیامیں عزیزیہ کے ایک ہوٹل میں آتشزدگی کی خبرگرم ہوئی،بعض اطلاعات کے مطابق یہ پرانی خبرہے جوسوشل میڈیاپرچلائی گئی،اس طرح کی افواہوں پرقدغن لگانے کی ضرورت ہے ۔چونکہ یہ دورسوشل میڈیاکاہے۔حجاج دودنوں کے بعدارکان حج کی ادائیگی میں منی ٰ،مزدلفہ ،عرفات میں مصروف ہوں گے۔طواف زیارت اورسعی بین الصفاوالمروہ میں بھی کافی بھیڑہوتی ہے۔ایسے میں اگرپھرکوئی افواہ پھیلائی گئی توبھگدڑکاخدشہ ہے۔اس کالم کے توسط سے تمام بھائیوں سے درخواست ہے کہ ان کے جوبھی اقارب وہاں مقیم ہیں ان سے افواہوں پردھیان نہ دینے کی اپیل کریں،اورہندوستانی مسلمان،ملک میں موجودسفارت خانہ اوروزارت خارجہ کے توسط سے نیزجوبھی شکل ہو،سعودی حکومت تک مطالبہ پہونچائیں کہ وہ افواہوں پرروک لگانے کے لئے اقدامات کرے نیزحاجیوں کوبھی مطلع کرے کہ جب تک حکومت کی طرف سے کوئی الرٹ جاری نہ ہو،کسی طرح کی ہڑبڑاہٹ اورگھبراہٹ کی ضرورت نہیں ہے۔اگرکسی طرح کی ا فواہ پھیل جائے توبھی حجاج کوآگاہ کرناضروری ہے۔ گرچہ حکومت نے بڑے پیمانہ پربھگدڑپرقابوپانے کیلئے اقدامات کیئے ہیں اورولی عہدشہزادہ محمدبن نائف جوحج کے سپریم کمیشن کے سربراہ ہیں ،نے یقین دہانی کرائی ہے کہ کسی طرح کی سازش کامیاب نہیں ہوپائے گی ،اورنہ کسی قسم کے پیروپیگنڈے کوکامیاب ہونے دیاجائے گا لیکن ان ذرائع پربھی روک لگانے کی ضرورت ہے جوکسی نقصان کاپیش خیمہ بن سکتے ہیں۔ساتھ ہی ہماری ذمہ داری ہے کہ سوشل میڈیاکااستعمال بہت احتیاط سے کریں اوراپنے ذرائع سے مصدقہ اطلاع کے بغیرایسی چیزوں کوشیئراورپوسٹ کرنے سے احترازکریں۔